Urdu Poetry / Shayari
Would you like to react to this message? Create an account in a few clicks or log in to continue.

اوکھا منڈا ـــــ منیرنیازی

Go down

اوکھا منڈا ـــــ منیرنیازی Empty اوکھا منڈا ـــــ منیرنیازی

Post by Princess Tue Nov 30, 2010 10:00 pm

اوکھا منڈا ـــــ منیرنیازی
مصنف : ممتاز رفیق

وہ ایک شہرِ طلسم تھا۔ جس میں شاہ زادے نے، اپنے افسوں سے، ایک عمارتِ عالی شان قائم کررکھی تھی۔ اِس عمارت کا مکیں، رہتے ہوئے، خودشاہ زادہ، ایک اساطیری حیثت اختیار کر گیا تھا۔ شہر میں اُس کے حوالے سے، عجب ناگوار کہانیاں گردش کرنے لگی تھیں۔ کوئی کہتا، وہ خود پسندی کے روگ میں مبتلا ہے، توکوئی گمان کرتا کہ وہ خوف زدہ ہے۔ تو کوئی گرہ لگاتاکہ وہ اپنے ماضی میں دفن ہے، اور کوئی، دور کی کوڑی لاتا اور حکم لگاتا کہ وہ دنیائے خیال کا باشندہ ہے۔ حالانکہ اِن تمام افواہوں میں کوئی سچائی نہ تھی۔ بات محض اتنی تھی کہ شاہ زادہ، حسن کا شیدائی تھا اور ایسی خوبصورت دنیا میں زندگی گزارنے کا تمنائی، جیسے خود اُس کے خواب و خیال مجسم ہوگئے ہوں، اور یہ دنیا جس میں وہ زندگی کرنے پر مجبور تھا، اُس میں بدصورتی اور بدہئیتی، اس کے چاروں اُور، رقصاں تھی۔ شاہ زادے کے لیے یہ ایک نوع کی سزا تھی ،جسے اُسے جھیلنا ہی تھا۔ اپنی اِس بپتا کو سہل کرنے کیلیے، اُس نے آئینہ اختیار کیا، اور اپنے عشق میں مبتلا ہو کر، زندگی کی ڈور کاٹنے لگا۔
اِس مردِ خدا کی، شاہ زادگی کا معاملہ بھی عجب تھا۔ دراصل، اُسے اپنا شمار، اُس خلقتِ عام میں ہونا، ہرگز گوارہ نہ تھا، جو اُس کے اردگرد کی فضا کو، اپنے تنفس کی بُوسے، مکدّر کیے ہوئے تھی، لیکن اِس ماحول سے چھٹکارہ تو اِسی صورت میں ممکن تھا، اگر وہ اِن عامیوں سے دور، کسی بلند سنگھاسن پر، براجمان ہوتا۔ اِس شخص کی وجاہت،متاثر کن ڈیل ڈول اور شخصیت سے اظہارپاتے وقار نے مل جل کے، اُسے تیقّن کی اُس منزل پر پہنچا دیا ۔جہاں آدمی بلاجھجک، کوئی بھی فیصلہ صادر کرگزرتاہے۔ سُو، منیر نیازی نے، شہزادگی اختیار کی اور کسی شاہ زادے کے سے طور و اطوار اختیار کر کے، اپنے گرد خوش بو کا حصار قائم کرنے کے جتن کرنے لگا۔ اِس کوشش میں اُس کی یادداشت سے، وہ چھوٹی سی لائبریری بھی محو ہوگئی ۔جو اُس نے کسبِ معاش کے لےے، منٹگمری شہر کی ایک تنگ گلی کی ،مختصر سی دکان میں، کبھی قائم تھی۔
منیر نیازی نے ،اپنے تئیں تو ایک نیا شخصی جاہ و جلال اختیار کر لیا تھا ،لیکن اِس میں مسئلہ یہ تھا ،کہ حیثیت کی تبدیلی، ہمیشہ سے دو طرفہ قبولیت کی متقاضی رہی ہے۔ جب کے یہاں تو، ایک ہمارا شہزادہ ہی، اپنی بات منوانے پر تُلا ہوا تھا۔ منیر نیازی کے اِس اصرار کے خلاف ایک خاموش ناپسندیدگی فضا میں ڈولنے لگی۔ جس نے شدّت اختیار کر کے، آخرِکار انکار کا روپ دھار لےا۔ آدمی کا تنہا رہ جانا، اُس کے دن ہی بے رنگ نہیں کرتا، اُس کی راتیں بھی درہم برہم کردیتا ہے، اور اگر سکون نہ ہو، تو نیند کہاں؟ اور جب نیند کی دیوی بھٹک جائے،تو خواب بھی رستا بھول جاتے ہیں، اور ہمارے شاہ ذادے کا کل اثاثہ تو بس، خواب ہی تھے۔ اُس نے جیسے تیسے، یہ کڑا وقت کاٹا اور آخر ناچار ہو کے، اُس طلسم کو کام میں لایا، جو اُس کی تنہائیوں نے اُسے تعلیم کیا تھا۔ یہ جو قصر ِباکمال ہم دیکھتے ہےں ۔یہ اُن ہی اسماءہوش رُبا کا ثمر ہے۔ اِس پُر شکوہ عمارت کا نظارہ، آپ پر ایک قسم کی ہیبت طاری کردیتا ہے۔ اِس کے کشادہ اور بلند و بالا منقّش دروازے پر دستک دینے سے قبل، آپ کو بہت سا وقت، اپنے حواس وہمّت اور ارادوں کو مجتمع کرنے میں صرف کرنا پڑتا ہے۔ آپ کو کھٹکا رہتا ہے کہ کہیں، آپ کی ناوقت کی یہ دراندازی، ہواؤں سے برسرپیکار شاہ زادے کے اشتعال میں شدّت کا باعث نہ بن جائے اور ناگاہ آپ پر، بھتنے، بدروح یا مکروہ مخلوق ہونے کا گمان نہ کر لیا جائے۔ خواب نگر کا شاہ زادہ منیرنیازی، اپنی اقلیم میں، کسی ناپسندیدہ انسان‘ منظر‘ پیڑ‘ پرند یا پگڈنڈی تک کو جگہ دینے کا روادار نہیں تھا۔ اگر اُسے کسی چیز میں من چاہی خو ش نمائی نظر نہ آئے تو یا تو ،اُسے حقارت سے رد کردیتاہے، یا خیال کی رنگ برنگی پنّیاں چپکا کے اُنھیں اپنے لیے قابلِ برداشت بنانے کی کوشش کرتاہے۔اگریہ ممکن نہ ہوتا، توایک چھوٹاسا خواب تشکیل کر کے اُس کی جگہ لا رکھتاہے۔ اِس عمارت کی تیاری میں اُس نے اپنی کتنی ہی راتیں اور دن سیاہ کر ڈالے ۔ اب یہی اُس کی پناہ گاہ تھی۔ جہاں وہ دنیا جہاں کی بدصورتی سے منہ موڑے خود اپنی نظارگی میں گم رہا کرتا، جب اِس مشغلے سے جی سَیر ہوجاتا، تودنےائے خےال سے کسی کو طلب کر کے، کسی عَالمِ نو ایجاد کا قصّہ لے بیٹھتا اور اگر یہ نہیں تو اپنے کسی دورپار کے دشمن پر کونے میں آدم قد آئینے نصب تھے، جنھیں کچھ اِس ترکیب سے آویزاں کیا گیاتھا کہ وہ محض ، حسن کو منعکس کیا کرتے۔ یہ عمارت دراصل منیر نیازی کے خوابوں کا جنگل تھا۔ جس میں ہر طرف دھنک ایسی رنگا رنگی تھی اور یہ آئینے وہ راتیں ،جن میں اُس کے خواب نمود پاتے۔ اِس جنگل میں ایسا لگتا تھا ، جیسے بہار نے دوام حاصل کر لیا ہو ۔یہاں کے چرند پرند کی خوش رنگی اور آوازیں، حسن اور نغمے تخلیق کیا کرتے، اور پائیں باغ کی مہک، منیر نیازی کے مشامِ جاں کو معطر رکھتی ۔ اُس باغ کی ہفت رنگ بِےلّوں سے لٹکتے انگوروں کے خوشے، کہ جن کا ہر دانہ، جیسے آبِ آسودہ کا ایک جام جہاں خیز تھا۔جنھیں محض آنکھوں میں بسا کے ہی ہمارے شاہ زادے کے قدم لڑکھڑانے لگتے اور آنکھوں میں گلابی اُترآتی، اور عمارت کے اَن گنت کمرے، جن کے شمار کرنے میں آدمی کو ہندسے کی عاجزی باور آئے، اور کہ جن میں سے ہر ایک کی سجاوٹ دل فریب اور منفرد، اور اِس سامانِ آرام و عیش میں حسن و نزاکت کا مرقّع دوشیزہِ فتنہ خیز، جس کی محض ایک جھلک ، آدمی کو دیوانہ بنادے اور لطف یہ کے ہر کمرے میں ایک سے بڑھ کے ایک پُرکشش اور دل آرام اور جاں سوز حسینائیں، اپنی اپنی آگ میں دھکی ہوئیں ،کہ انھیں شاہ زادے کی قربت فراغت سے نصیب نہیں ۔ یہاں تووہی، ایک انار سو بےمار کا معاملہ ہے، اگر وہ اُن میں سے کسی ایک سے ملاقات کی فرصت پاتا بھی ہے تو بس گھڑی بھر کی ،اور ےہ لمحہِ اختلاط اُس دکھیاری کے آتشِ شوق کو اور سوا کر جاتا ہے۔ اِدھر منیر نیازی ہے کہ اپنے لفظ و خیال کا پٹارا حواس پر بار کیے۔ اپنی زندگی کی تلخیوں اور ناکامیوں اور ناآسودگیوں سے آنکھیں چُرائے ، رستا بتانے والے ستارے کی رہ نمائی میں، ماہِ منیر کا تصور کیے سفر کی رات کاٹتا جاتا ہے۔ وہ خوب آگاہ ہے کہ کچھ کوس پرے اُس بے وفا کا شہرہے جو اُس کی راہ کی دیوار بنے گا۔
لیکن یوں آنکھیں چرا لےنے سے حقیقت کہاں بدلتی ہے۔ ہر یکم کو ایک منحوس دستک اُس کے تمام کےے دھرے پر پانی پھیر دیتی ہے، اور اُسے کچھ نہیں سوجھتا کہ اِس بار کچھ دن کی مہلت کے لیے مالکِ مکان کو کیوں کر آمادہ کیا جائے۔ منیر نیازی، مشاعروں میں خواہ کتنا ہی تہلکہ مچاتا ہو۔ ادب دوست اُس کے اشعار پر کتنا ہی سرکیوں نہ دُھنتے ہوں۔ مگر علاج کی غرض سے معالج تک پہنچنے کے لیے تو جیب کا بھاری ہونا ازبس ضروری ہوتا ہے اور مشاعرے بازی سے کس شاعر نے اتنی چاندی کمائی، کہ اُسے اتنی فراغت نصیب ہو کہ اُس کا چولہا بھی روشن رہے اور اُس کے وابستگان کی دوا دارو بھی سہولت سے چلتی رہے اور وہ ملبوساتی معاملات و مشکلات سے بھی چنداں پریشاں نہ ہوتا ہو اور اس کی نسلِ آئندہ آبرو مندی سے، علم سے بھی آراستہ ہورہی ہو۔یہ تو وہ چند ضرورتیں ہیں،جن سے آدمی کا ہر پَل کا واسطہ ہے۔
اور منیر نیازی جیسا خواب ذدہ! اُس کے مطالبات تو اِس سے کہیں سوا ہوں گے۔ سب سے بڑھ کے بنتِ انگور ہے کہ اگر وہ میسرنہ ہو توخواب کیسے تشکیل پائیں، شام کےسے مہکے؟ تو اب، اگر منیر نیازی خواب نہ دیکھے تو کیا مر جائے؟ سُو وہ خواب دیکھتا ہے اور خوب دیکھتاہے۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اُس کی زندگی ایک مسلسل خواب ہے اور اپنے خوابوںمیں ہمارے شاہ زادے کو جو آسودگی اور اطمینان اور تن آسانی حاصل ہے ،یہ دراصل اُس کے اپنے تخیل کی زرخیزی ہے۔ مگر اتنا بھی کسی کو کب مرغوب ہوا۔ ہمارا شہزادہ اچھا بھلا ،اپنی خوابوں کی نگری میں مست و مگن تھا کہ میلی نگاہوں کا ہدف ٹھہرا، اور وہ عمارت بھی زمیں بوس ہوئی، جہاں اِس جنم جلے نے پناہ لے رکھی تھی۔
جب اُس نے چھے رنگین دروازوں والی اِس عمارت کو خیرباد کہا اور اپنی دراز قامت اور سرخ و سفید رنگت اور خوب رُوئی لیے، لباسِ عالی شان زیب تن کیے، پھرتا پھراتا مال روڈ کی پاک ٹی ہاؤس کی دروازے پر آیا تو بدصورتی اور بلاؤں اور بھتنوں اور پچھل پیریوں کا ایک انبوہ کثیر وہاں موجود تھا۔ پاک ٹی ہاؤس میں ہفتہ وار تنقیدی نشست میں پوری مستعدی سے جُگت بازی جاری تھی۔ میں نے یہیں منیر نیازی کو پہلی بار دیکھا۔ چوڑی ماتھی پر مٹی مٹی سی سلوٹوں کاجال اور ایک چمک، جو اُس کی ظفر مندی پر دلیل تھی، سلیقی سی کاڑھی گئی مہین گھنی بال اور سرور کی بوجھ سی مندی مندی درمیانی آنکھیں، جن میں مستی تیر رہی تھی، اور بھاری پپوٹی، گویا وہ صبح و شام غرقِ مئے ناب رہنے کی عادی تھی، اور ننھی منّی سی ناک، جس کی نتھنے خاصی کشادگی رکھتی تھی اور مناسب سادہانہ اور پتلی پتلی ہونٹوں سی جھانکتی، زردی مائل دانتوں کی آزاد صفاچٹ دمکتا چہرہ، اور لفظوں کا ٹوٹ ٹوٹ کر ادا ہونا، اور سانس کی ساتھ فضا میں بکھرتی بنتِ انگور کی ناگوار سی بو، اور تندرست و توانا جسم، اور لمبے چوڑے ہاتھ پاؤں، اور بدن پر کڑھا ہوا بوسکی کا کُرتا، اورلٹّھی کی چٹک مٹک کرتی شلوار، اور جگ مگ کرتے کُھسّے اپنی بہار دکھا رہے تھے۔


Princess
New Member
New Member

Number of posts : 3
Registration date : 2010-11-30

Back to top Go down

اوکھا منڈا ـــــ منیرنیازی Empty Re: اوکھا منڈا ـــــ منیرنیازی

Post by Princess Tue Nov 30, 2010 10:01 pm

منیر نیازی کے اندر کا دیہاتی ہمک ہمک کر اپنے اظہار کو مچل رہا تھا ۔لیکن وہ ایک نہایت متاثرکن اور اثرانداز ہونی والی شخصیت تھی۔ میں اُس کی وجاہت سے مرعوب، ٹھٹکا ہوا کھڑا تھا ناگاہ ایک پُرجوش سرگوشی سنائی دی،” ارے بابا! یہ تو منیر نیازی ہی، آؤ ملتے ہیں۔“ یہ پروفیسر حسن علی رضوی تھی۔ جنھیں ہم سب بابا رضوی کہہ کر مخاطب کیا کرتے تھے، اور مَیں اُن ہی کی میزبانی میں اِن دنوں لاہور میں تھا۔ بابا رضوی پُر اسرار علوم کی ایک بڑی آدمی ہیں لیکن انھیں حیران کن حد تک، ادیبوں اور شاعروں سی دل چسپی تھی۔ شاید اِن دونوں علوم کی ڈانڈے کسی سرے پر جا کےجڑ جاتے ہیں۔ میں ابھی گومگو کی کیفیت میں ہی تھا کہ بابا رضوی نے منیر نیازی سی اپنی انگشتری اتارنے کو کہا۔ منیر نیازی اِس بے ڈھب فرمائش پر لخطہ بھر کو ٹھٹکا اور پھر جانے کیا سوچ کی انگوٹھی اتار، بابا رضوی کی حوالی کی۔ بابا نے منیر نیازی کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بڑے اعتماد سے سوال کیا۔ ”منیر صاحب !آپ کون سی خوش بو پسند کرتے ہیں؟“
”خوش بو؟“ منیر نے کچھ نہ سمجھنے کی انداز میں بابا کی بات دھرائی پھر بے دھیانی سے بولا۔ ”رات کی رانی، مجھی یہی خوش بو پسند ہے۔“ بابا منہ ہی منہ میں کچھ بدبدائے اور پھر انگشتری پر پھونک مار کی اُسے منیر نیازی کی طرف بڑھا دیا۔ لیجیے، رات کی رانی، صبح تک لطف لیتے رہیے۔“ منیر نیازی نے الجھی ہوئی نظروں سے بابا کو دیکھتے ہوئے انگوٹھی کو سونگھا تو مارے حیرت کے اُس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔
یہ بابا رضوی کا پرانا پینترا تھا۔ وہ جس سے متاثر ہوتے اُسے حیران کرنے کے لیے اپنا یہی چٹکلا آزماتے تھے۔ اِدھر منیر نیازی، پاک ٹی ہاؤس کی دروازے کی طرف رخ کیے تقریباً دہاڑ رہا تھا ۔”یہ ہے زندہ جادو، شیطان کی سجنو! لفظوں کا چہرہ بگاڑنے والی بدروحوں ! یہ ہے زندہ جادو۔ دیکھو سچ نے سچ کو ڈھونڈ نکالا۔“ یہ کہتے ہوئے منیر وہیں بابا کی قدموں میں بیٹھ گیا۔یہ کارروائی اِس قدر اچانک ہوئی کہ میری ساتھ بابا رضوی بھی گھبرا گئے۔ اُنھوں نے جیسے تیسے منیر کو زمین سی اٹھا کر سینے سے لگایا اور پھر وہاں سے کھسکنی کی راہ کھوجنے لگے۔ اُنھیں منیر کی بے پناہ عقیدت اور غیر معمولی رویئے نے بدحواس کردیا تھا۔ حالاں کہ، وہ بے حد مضبوط اعصاب کے آدمی تھی۔
لاہور میں منیر نیازی کے گردوپیش کی فضا نہایت ناموافق تھی۔ اُس کی بڑبولے پن اور اونچی آواز میں کی جانے والی خود کلامی کی عادت نے اسے اپنی زمین پر ناپسندیدہ بنانے میں بڑا حصّہ لیا تھا۔ منیرجس شدّت سے نظر انداز کیا جارہا تھا۔ اتنا ہی زیادہ اُس میں خود مرکزیت کا جذبہ زور پکڑ رہا تھا ۔اِس کی باوجود ہمارے شاہ زادے نے اپنے شعروں کی فسوں خیزی سے اردگرد کے کھردرے پن کو ہموار کرنے کے جتن جاری ر کھے، لیکن اُس کے لہجے کی اجنبی نغمگی زیادہ دیر تک مقامیوں کو اپنا اسیر رکھنے میں ناکام رہی ۔ آخر اُس نے چار چپ چیزیں اختیار کر کے فیصلہ کیا کہ اب وہ ہر شام، دشمنوں کی درمیان گزارے گا ۔وہ جانتا تھا کہ وہ، تیز ہوا کی زد پرکَھلا ہوا، ایک تنہا پھول تھا۔اُس کی فن کی پہلی بڑی گواہی دور دیس کی ایک شہر سی آئی۔ جہاں نقار خانے کی طعام گاہ میں، نوجوان لڑکے لڑکیوں کی جھرمٹ میں گھرا، بڑھاپے کی دہلیز پر دستک دیتا ہوا، گہری رنگت کا چاق و چوبند دانشور قمر جمیل، اُس دور پار کے شاعر منیر نیازی کی، ہوا کو معطر کرتی ہوئی لفظوں سے دہکا اور مہکا ہوا،اپنی شاگردوں کو، خواب نگر کے شاہ زادےکی شاعری کے محاسن تعلیم کررہا تھا۔اُس کی آواز کی چمک سے اِس طعام گاہ کی نیم روشن فضا میں، جیسے جگنو جگمگا رہے تھے۔ وہ اپنی جمی ہوئی کھرج دار آواز میں اپنے کلام کا جادو جگاتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ ‘‘ منیر نیازی کی شاعری میں روحِ عصر بولتی سنائی دیتی ہی۔ وہ جدید حسیت کی اعلیٰ ترین شعور کا مالک ہے۔ اُس نے اپنی شاعری سے جو طلسمی دنیا خلق کی ہے، اس کا ہر منظر، ہمیں ایک جہانِ نو کی سیر کراتا ہے۔ میں اُس کی مصرعوں میں بڑی شاعری کی امکانات دیکھتا ہوں۔
دلوں میں گرو کا کہا ہر لفظ ،منیر نیازی کےلیے محبت کا ایک نیا چراغ روشن کررہا ہے۔ رئیس فروغ، دھیمی آواز میں منیر کا کوئی مصرعہ دہراتے ہیں۔ سید ساجد، اپنی گول گول آنکھیں گھماتے ہوئے، شعر مکمّل کرتا ہے۔ فاطمہ حسن، لالی سی لتھڑے ہونٹ باہر کو دھکیلے، چہرے پر عقیدت سجائے ، اپنی تصور میں منیر کو تصویر کیے کوئی دور کا خواب دیکھ رہی ہے۔ ثروت حسین کے دہکتی گالوں پر اپنے پسندیدہ شاعر کی تذکرے سے جیسے سرخی دوڑے ہوئے ہے۔ شوکت عابد، اپنی نوٹ بک سنبھالے، گرو کے مکالماتِ جمیل رقم کررہا ہے۔ اِس نقارخانے میں منحرفین کی یہ چوپال تقریباً روزانہ ہی اپنے سرخیل کی قیادت میں یہاں بیٹھک جماتی ہی۔یہی وہ گروہ ہی ،جس نے نثر میں شاعری کے امکانات کو اپنی منزل قرار دے کے، اپنے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ اُن کا سرپنچ کہ کلام میں کمال کے درجے پر فائز ہے اور فرانسیسی شعراکی تخلیقی جوہر کو گراں مایہ جانتا اور مانتا ہے۔ اُس نے غزل کو از کار رفتہ قرار دے کے نوجوانوں کے ریوڑ کے ریوڑ کو انحراف کی یہ راہ سمجھائی ہے ۔لیکن اِس وقت گرو جس شاعر کو مرکزِ گفتار بنائے ہوئے ہے اور جس کی شاعری میں اُسے روح عصر کی گونج سنائی دیتی ہے۔ اُس کا اثاثہ وہی بوسیدہ صنف ”غزل“ ہے، جس کی خلاف اُس نے ایک محاذ کھول رکھا ہے۔ مَیں، جو طلسمِ شعر کا تازہ تازہ اسیر ہوا ہوں، اِن لڑکے لڑکیوں سے، تعلق کی ایک ضعیف وقوی ڈور میں بندھا ہوا ہوں اور ایک وقت کے راتب کی بو سونگھتا اکثر اِدھر آنکلتا ہوں۔ اِس ہجوم میں شامل، مملکتِ شعر میں، ایک شہزادے کی فتوحات کے چرچے سن رہا ہوں۔ وہ شاعر ،جسے اُس کے اپنے شہر میں نظر انداز کیے جانے کے سزا سنادی گئی ہے اور دور دیس کا ایک ادھیڑ عمر شاعر،اُس کی لیے اپنی آغوش وا کیے، اپنے ہم راہیوں میں اُس کے شایانِ شان استقبال کی فضا استوار کررہا ہے۔ مجھے، قمر جمیل کے جذبے کی یہ کو ملتا بھلی لگ رہی ہے۔

Princess
New Member
New Member

Number of posts : 3
Registration date : 2010-11-30

Back to top Go down

اوکھا منڈا ـــــ منیرنیازی Empty Re: اوکھا منڈا ـــــ منیرنیازی

Post by Princess Tue Nov 30, 2010 10:02 pm

قمر جمیل کے اِس روز روز کے بھاشن اور نوجوانوں کے گروہ میں منیر نیازی کی شاعری کے باری میں ایک سازگار فضا نے ،دیکھتے ہی دیکھتے کراچی کو منیر نیازی کے مفتوحہ شہر میں بدل دیا۔ اب ہر طرف اُس کی نظموں، غزلوں کا چرچا تھا اور پھر ہمارا شہزادہ ایک تواتر سے کراچی میں ڈیرہ لگانے لگا۔ اِس پورے معاملے میں سب سی اچھی بات یہ تھی کہ کراچی کی ایک بڑی فعال گروہ نے لاہور کے ایک جیوٹ شاعر کو سب سی پہلےگلے لگایا ۔ منیر نیازی کی شاعری کا انکار ہی شاید اُس کا سب سے بڑا مسئلہ تھا۔ جب یہاں اِس پُرجو ش انداز میں اُس کا اعتراف کیا گیا تو وہ، جیسی پھر سے جی اٹھا۔ اُس کے چہرے کی وہ شادابی لوٹ آئی تھی جسے میں نے لاہور میں نظارہ کیا تھا اور جو لڑائیاں لڑتے لڑتے دَم توڑ چلی تھی۔ اُس کے لہجی کا وہ طنطنہ اور اعتماد بھی اُس کاایک وصف شمار کیاجاتا، اگر اُس سے ہمارے شاہ زادے کی خود پسندی اور کسی حد تک تکبّر،اظہار نہ پارہی ہوتی ۔یہ سب کچھ اب تقویت پا کے دوبارہ اپنےاصل کراری پن کی طرف لوٹ رہا تھا، کراچی والوں کو اُس کی یہ ادا بھی بہت خوب لگی ۔بلکہ ابتدامیں توچند نوجوانوں نے اپنی معصومیت میں منیر نیازی کے اِس رویے کو اپنا کے ماحول بے سبب مسموم بھی کیا۔ خالی ڈبّوں کا یہ شور شراباکس کو بھلا لگتا؟ منیر نیازی اگر کچھ کہتا تھا تواُس کی اندر توخیر ایک طاقت تھی، ایک آگ تھی، جسے اس نے ہمیشہ دہکائے رکھا تھا اور جب اندر کی حرارت ناقابل برداشت ہوجاتی تو وہ انگارے اگلنے لگتا۔ رائٹرز گلڈ کو اکادمی ادبیات میں ضم کردیا جائے ،گلڈ پر پبلشروں اور بینکرز کا قبضہ ہوگیا ہے۔ میرے اردگرد بدصورتی کا احساس بڑھ گیا ہے اور میں ایک مکروہ اور بدہیت معاشرے کے ردِّعمل میں شعر تخلیق کرتاہوں اور انسانی رشتے مسخ ہوچکے ہیں۔ میں ناپاک لوگوں سے مکالمہ کر کے خود کو ناپاک نہیں کرنا چاہتا ،اور کہ پنجاب میں مجھے کم زور کرنے کے لیےی قتیل شفائی کو آگیے بڑھایا جارہا ہے ۔ میں مکّار روحوں کے نرغے میں ہوں۔ وہ کہتا ہے کہ ہم ایک اذیت پسندمعاشرے میں رہتے ہیں۔ جہاں کوئی ہم پر براہ راست حملہ آور ہوتا ہی تو کوئی نظر انداز کر کے ہمیں ہلاک کردیتا ہے۔ اِس قسم کی تلخ نوائی کے بعد، اگر ہمارے شاہ زادے کے تخلیقی جوہر سے انکار کیا گیا یا اُسے نظر انداز کر کے اُس کی روح تک کو زخم زخم کردیا گیا یا اُسے ہر طرح کے انعام و اکرام سے محروم رکھا گیا تو اِس میں ایسا عجب کیا ہے؟ یہ تو ہونا ہی تھا۔ اگر کوئی مسخ معاشرے میں سچ کے پھول کھلانے کے جتن کرے ،تو اُسے نیزے کی اَنی کو سینے پر جھیلنے کا حوصلہ بھی پیدا کرنا پڑتا ہے۔
منیر نیازی کراچی آتا، تو اُس کی گرد بونوں کا مجمع لگ جاتا۔اِس ہجوم میں خود کو دیو قیاس کر کے خود پسندی کا شیطان اُسے خوب خوب بہکاتا اور وہ، اپنی انٹرویوز میں ببانگ دھل اعتراف کرتاکہ ہاں، خود پسندی میرا دفاعی ہتھیار ہے، اپنی بات کی تاویل وہ کہتا کہ خود پسندی کا شکار صرف وہی ہوسکتا ہی جو اس کا اہل بھی ہو۔ اپنی اسی جھونک میں وہ یہاں تک کہہ گزرتا ہی کہ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ ملک میں اکیلامَیں ہی شاعر ہوں۔ لیکن اِسی کے ساتھ اُسے یہ شکایت ہمیشہ رہی کہ اُسی ہر چیز کی نفی کرنے والے ایجی ٹیٹر کی طورپر پینٹ کردیا گیا ہے۔ ہمارا شہزادہ کسی کو رہبر بنانے پر بھی آمادہ نہیں ہے۔ اُسے خطرہ ہے کہ وہ گم کر دیاجائے گا۔ اگر اس گفتگو کے پس منظر میں ہم اپنے شاہ زادے کے ماضی پر نظر کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ اُسے بہت معمولی سزا جھیلنی پڑی ورنہ اِس انداز میں گرجنے، چمکنے کی کم از کم سزا سنگساری ہونی چاہیی تھی، یہ کراچی کے دیوانوں کی محبت تھی جو اُس کی ڈھال بن گئی۔ اب اگر منیر نیازی کے مستقبل کے حوالے سےدیکھا جائے تولگتا یہی ہے کہ وہ بھی کچھ ایسا تابناک نہیں ہے کہ اپنی گیارہ کتابوں پر سوار ہو کے وہ جہاں تک آپہنچا ہے۔شاید اِس سے آگے اُس کے لیے زیادہ روشنی نظر نہیں آتی ۔بلکہ اب تو ایسا لگتا ہے جیسے وہ اپنی اننگ مکمّل کرچکا ہے۔ کیوں کہ پچھلی دو سال سے اُس نے ایک مسلسل چپ سادھ رکھی ہے۔ اب تو اُس کی جانب سی یہ گلہ بھی سنائی نہیں دیتا کہ اُس کا پبلشر اُسے رائلٹی ادا نہیں کررہا۔ اُسے اب اِس بات سی بھی کوئی علاقہ نہیں رہا کہ شاعری کی نام پر کسی نوازا جارہا ہے اور کون ہے جسے حق سے محروم کردیا گیا۔ کیوں کہ اب، جب وہ خود ہی نہیں ہے تو شاید اُس کی لیے کوئی اور بھی باقی نہیں رہا ہے۔ نیرنگی ِزمانہ بھی خوب ہے۔ یہ وہی شخص ہے، جو مخالف سمت سے آنےوالے ہوا کے جھونکے پر بھی تلوار سونت لیتا تھا اور آج اس کی آس پاس موت اور بیماریاں ہیں، وہ تھکن سے چُور فریاد کناں ہے، میرے عذابوں کو شیئر کرو،مجھے پے در پے شکستیں ہوئی ہیں۔ لیکن اب کون ہے جو اُس کا غم بانٹے ،قمر جمیل اب رہے نہیں، رئیس فروغ بھی جنت مکانی ہوئے، ثروت حسین نے عدم کی راہ لی، سید ساجد کی سانس کی ڈور کاٹ دی گئی۔ سراج منیر عین جوانی میں خالق حقیقی سے جا ملے اور جو رہ گئے، اُن پر خود اپنا بوجھ بھاری ہے، وہ کسی گرتی ہوئی دیوار کو کیا سنبھالیں۔ ایک لے دےکے فاطمہ حسن ہیں، جو پوری استقامت سی ایک بڑی شاعر کی پرچھائیں سے تعلق کی ڈور میں بندھی ہوئی ہیں۔ لیکن وہ بھی شاید اُس وقت تک جب تک منیر نیازی کی نیوز ویلیو باقی ہے ۔ اِس میں کوئی ایسی بری بات بھی نہیں، آخر اِس کمزور لڑکی کو بھی تو زندہ رہنا ہے۔ اُس کی سرکاری گاڑی بے مصرف چیزیں ڈھونے کے لیے نہیں بنی۔ آخر کب تک وہ ”ہمدرد عورت“ کی بھپتی سہتی رہے۔ ابھی حال ہی میں تو وہ جمال احسانی کی بوجھ سے آزاد ہوئی ہے اور منیر نیازی تو یوں بھی ہمیشہ سے بہت زیادہ کا طلبگار رہا ہے۔ لیکن اب تک، جب کبھی منیر نیازی کراچی آتا ہے۔ فاطمہ حسن ایک پُرجوش میزبان کی طرح اُس کی مدارت کرتی ہے۔ زندہ، مردہ تقریبات اور افراد سےاُس کی ملاقات اور شرکت کو یقینی بناتی ہے اور جواب میں اِس بے چاری کوملتا کیا ہے؟بس ایک کالمی، چند سطری خبر اور وہ بھی اندر کے صفحات میں، اب وہ حساب کتاب کی اتنی کچّی بھی نہیں کہ گھاٹے کے اِس سودے کا نوٹس ہی نہ لے، لیکن کیا کیجیے کہ ہمارے شاہ زادے کا طلسم بھی خوب ہی جس نے اِس سانولی لڑکی کو کانٹا نگلی مچھلی میں بدل کر رکھ دیا ہے۔ اب اگر اتنی مدّت گزرجانے کے بعد منیر نیازی کو دیکھیں، تو ہم ایک بلند و بالا عمارت کی خستہ حالی دیکھنے کے پُر ملال تجربے سے گزرتے ہیں۔ جس کی دیواروں میں دراڑیں پڑ گئی ہیں ،جب ہم اُسے دیکھ رہے ہوتے ہیں توہمیں اِس میں سےجھڑتی مٹّی کی سرسراہٹ صاف سنائی دیتی ہے۔ جب وہ کلام کرتاہے تو گویاہم سرگوشیاں سن رہے ہوتے ہیں ، اُس کا وہ بلند لہجہ اور دبنگ انداز، جس سے اعتماد اور یقین کے چنگھاڑتے ہوئے دھارے پھوٹا کرتے تھے، لگتا ہے، اُس کے ماضی کے ساتھ دفن ہوگئے۔ آنکھیں گدلی ہو کر اپنی چمک گنوا بیٹھیں۔ ماتھے پر ظفر مندی کی چمک کی جگہ گہری سلوٹوں نے لے لی۔ سر کے بال جو پہلی خاصی گھنے تھےاب گویا رہے ہی نہیں، یہاں تک کہ بھنوویں بھی اجڑی ہوئی کھیتی کا منظر پیش کرتی ہیں۔ گال دھنس کے اپنی شادابی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ناک اور آئے ہیں اور ہاتھ پیروں میں سے وقت نے توانائی کوچوس ڈالا ہے۔ اب وہ کھڑا ہوتا ہے تو اُس پر، کسی بوسیدہ کمان کا گمان ہوتا ہے ۔ اب چار سیڑھیاں اترنے کیلیے ہمارا شہزادہ، چالیس سے زیادہ سانس بھرنے پر مجبور ہے۔ یہ وہی آدمی ہے، جو حرکت تیز تر اور سفر آہستہ آہستہ پر شاکی ہواکرتاتھا۔ اب جب حرکت ہی نہ رہی تو سفر کیسا؟ جب خواب ذدہ کے پلّے میں خواب نہ رہیں، تو وہ ایسا ہی تہی دست ہوجاتا ہے۔
اب اُس نے لاہور کے نواح میں ایک پناہ گاہ بنالی ہے اور وہاں محصور ہو کے لفظ بھولنے کی مشق میں جتا ہوا ہے۔ اُس نے مکان میں اِس کا خصوصی اہتمام رکھا ہے کہ کوئی دروازہ نہ ہو۔ اب اگر کسی کو اُس تک پہنچنا ہو تو اِس کا واحد ذریعہ ایک تنگ سی کھڑکی ہے اور وہ بھی صرف اُسی کے لیے وا ہوتی ہے۔ جسے ہمارے شاہ زادے کا ماضی دھرانے کا ہنر آتا ہو، کہ اب وہ جتنا جیسا ہے بس اپنے ماضی میں زندہ ہے ۔
جب اُسے مشاعروں میں امریکا‘ برطانیہ اور دیگر ملکوں میں مدعو کیاجاتا تھا اور وہ ہر جگہ دھومیں مچاتا، ایک نشے کے سے عالم میں ناز نخرے اٹھوایا کرتا تھا۔ لیکن چیتھڑے ہوا لباس کون ملبوس کرتا ہے؟ تو یہ ہے، وہ شاعر شاندار، جو کہتا تھا، میرے روگ خوب صورت خیال اور شعر کہنے سے ختم ہوجاتے ہیں۔ اچھی نظم مجھے تندرست رکھتی ہے۔ جس کے ایک انٹرویو میں ڈاکٹر طاہر مسعود نے توقّع قائم کی تھی۔
”منیر نیازی کو کتنا ہی نظر انداز کیا جائے لیکن اُس کی شاعری اگر سچّی ہے اور اُس میں زندہ رہنے کی قوّت موجود ہے تو تن آور درخت گر جائیں گے، حملہ آور تلوار کو زنگ کھا جائے گا ، دشمن قبیلے کُوچ کر جائیں گے اور منیر کی شاعری، موسمِ بہار کے تازہ جھونکے کی طرح ہمارے درمیان موجود رہے گی۔

Princess
New Member
New Member

Number of posts : 3
Registration date : 2010-11-30

Back to top Go down

اوکھا منڈا ـــــ منیرنیازی Empty Re: اوکھا منڈا ـــــ منیرنیازی

Post by Sponsored content


Sponsored content


Back to top Go down

Back to top

- Similar topics

 
Permissions in this forum:
You cannot reply to topics in this forum